بہت سے لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ تمام مذاہب ایک ہی طرح کی اخلاقی تعلیم دیتے ہیں اور ان کے درمیان معمولی نوعیت کے اختلافات ہیں۔ حقائق کی تفہیم جہاں ہم پر جنابِ مسیح اور محمد اور اللہ کے مابین سطحی مماثلت سے متعارف کرواتی ہے، وہیں، تعلیمات کے مابین واضح خلیج کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ نتیجتاً ان عقائد کی رو سے اعمال بھی اختلاف کا شکار ہوتے ہیں۔
اسلام میں گناہ کی بنیادیں:
اسلام میں اللہ گناہ کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
گناہ کی سنگینی اور مسیحیت :گناہ کے برے میں مسیحیت میں کوئی دہرا معیار نہیں، پاکیزگی خدا کا واحد معیار ہے۔
احبار 11:45 اور 19:2 اور 1-پطرس 1:16 میں لکھا ہے مقدس ہونا کیونکہ میں قدوس ہوں ، پھر فرمان آیا ہے کہ ” کیونکہ میں خداوند لاتبدیل ہوں ” ملاکی 3:6؛ عبرانیوں کے نام خط اس کے 13 باب اس کی 8 آیت، اور رومیوں میں یوں لکھا ہے کہ ” سب نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں ، ” (رومیوں کے نام خط 3:23)
زناکاری بائبل میں سختی سے منع ہے (متی 5 باب اس کی 27 تا 28 آیات) جبکہ اس کے برعکس اسلام میں محدود نوعیت کی زنکاری جائز ہے (سورۃ 24 اس کی 33 آیت؛ 4:24؛ 33:37)
مسیحیت کے برعکس اسلام میں تمام گناہ یکساں طور پر غلط نہیں۔ گناہوں کو بہت سے درجوں میں تقیسم کردیا گیا ہے(اگرچہ مشکلات کا شکار ہے) ، لیکن بنیادی طور پر دو اقسام ہیں، گناہ کبیرہ ، اور گناہ صغیرہ۔ گناہِ کبیرہ کی فہرست کافی بڑی ہے مگر عمومی طور پر انکی فہرست کچھ یوں ہوگی:
1۔ شرک کرنا
2۔ جادوگری کرنا
3۔ غیرشرعی وجہ کے قتل کرنا
4۔ سود کا استعمال (زیادہ شرح کے ساتھ قرضہ فراہم کرنا)
5۔ کسی یتیم کی ورثہ پر ناجائز قبضہ کرنا
6۔ جنگ (جہاد) میں پیٹھ دکھانا
7۔ماں باپ کے حکم کی نافرمانی کرنا
8۔ جھوٹی گواہی دینا (جھوٹ بولنا)
9۔ غربت و افلاس کی بنا پر اپنے بچوں کو قتل کرنا ممنوع ہے
10۔ ہمسایہ کی بیوی سے ناجائز تعلقات رکھنا (زناکاری)
11۔ شراب پینا
12۔ جوا کھیلنا
باوجود اس کے کہ یہ سب گناہ کبیرہ کے زمرے میں آتے ہیں، تعلیمات ِ محمدی کے مطابق یہ گناہ سنجیدہ نوعیت کے نہیں۔
جیسے ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں، زنکاری حرام ہے، زنا (سورۃ 24:33) اور متاع (سورۃ 4:24) کی اجازت ہے۔ پس اسلام میں گناہ کی حساس نوعیت اور تعلیم کے بارے میں اختلاف پایا جاتاہے۔ مثال کیطور پر زمینی زندگی میں شراب حرام ہے ـسورۃ 5 اس کی 90 تا 91 آیتہ، لیکن اسلام جو جنت پیش کرتا ہے ، اس میں شراب دستیاب ہے (سورۃ 56:18؛ 76:5، اور 17؛ 78:34) ۔ دنیا میں 4 بیویاں رکھنے کی اجازت ہے ( مختصر وقت کے لئے بیویوں اور حرموں کے علاوہ) اور زناکاری کی بھی (سورۃ 4:3) لیکن جو تصورجنت اسلام میں رائج ہے ، اس میں 72 حوریں بمطابق ( ترمزی ، حدیث نمبر 1067، 1494 ؛ سوفٹ وئیر عالم) ، اور دیکھئے سورۃ 56 اس کی 22 تا 40 آیات، اور سورۃ 55:72 پر ابن کثیر کی تفسیر ) اور لڑکوں کے حوالے سے (سورۃ 52 اس کی 24 ؛ 56:17؛ 76:19)
عام طور پر جھوٹ بولنا حرام ہے، لیکن تکیہ کے عقیدہ کی رو سے مسلمان کو یہ شرعی طور پر یہ حق حاصل ہے کہ غیر مسلموں سے جھوٹ بول سکیں۔ محمد کا ایمان تھا کہ جھوٹ بولنا جائز تھا، ” انشااللہ، اگر میں کوئی کام کرنے کے کسی سے عہد باندھوں، اور ایسا محسوس کروں کہ کچھ اور زیادہ قابلِ ضرورت ہے تو میں جو زیادہ مناسب معلوم ہوگا، وہ کرنے کو ترجیح دونگا اور اپنی وعدہ خلافی کی تلافی کردونگا” ( البخاری، حدیث 361: جلد نمبر 4) سورۃ 66:2 کیمطابق اللہ کی جانب سے مسلمان وعدوں کی پاسداری سے مبرا ہیں۔
جھوٹ بولنا جائز ہے کیونکہ اللہ دھوکہ دے سکتاہے۔ اللہ تعالی خود کو سب سے بڑا چالباز گردانتا ہے، "خوب چال چلنے والا” (سورۃ 3:54؛ 8:30) اور لوگوں کو گمراہ کردیتا ہے، (سورۃ 4:88اور 143؛ 7:178اور 186؛ 13:27) قتال بظاہر جرم ہے ، لیکن فتنہ کو ختم کرنے کے لئے اس کی اجازت دی گئی ہے ( سورۃ 2:191؛ 2:217) یا کفر (سورۃ 8:39) ۔ یہانتک کہ مسلمانوں کو یہ ہدائیت دی گئی کہ اگر کوئی اپنے دین کو چھوڑ کر اسلام قبول نہ کرے تو وہ واجب القتل ہے، (9:5) پس اگر کوئی اسلام قبول نہیں کرتا یا فتنہ کو فرو کرنے کی ضرورت پیش آئے تو قتال کی اجازت ہے۔ کفار کے قتل کی کوئی سزا نہیں ( البخاری، حدیث نمبر 283 جلد نمبر 4)۔
گو کہ جادوگری گناہ ہے مگر محمد نے اس کی اجازت دی۔ (مسلم ، حدیث نمبر 5449، 5452، 5456، جلد نمبر 26) عظیم گناہوں سے میں یہ رویہ مدنظر رکھتے ہوئےدیکھتے ہیں کہ محمد نے نہ صرف بچوں کو اپنے والدین کی فرمانبردای سے ممانعت کی تعلیم دی بلکہ انہیں والدین کی قربت سے بھی محروم کردیا۔ ( سورۃ 9:23)
باوجود ان تمام بے ضابطگیوں اور بے ربط کے اللہ گناہ کی ضرورت پرپرزور تائید کرتا دکھائی دیتا ہے ۔
"اس ذات باری تعالی کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر تم گناہ نہ کرو ، تو اللہ تمہارا نام و نشان ہی مٹا ڈالیگا، اور ان جیسا کردیگا وہ گناہ کرتے اور پھر اللہ سے معافی کے طلبگار ہوتے ہیں اور اللہ بڑا معاف کرنیوالا ہے ، (مسلم ، حدیث نمبر 6622، 6621، کتاب نمبر 37، جلد نمبر 4)
یہاں یہ بات واضع ہو جاتی ہے کہ اللہ کے ہاں گناہ کتنا اہمیت کا حامل ہے ، کہ اگر آپ گناہ نہ کریں تو آپ کو صحفہ ہستی سے مٹا ڈالا جائیگا۔ گناہ کرنا مسلمانوں کے لئے لازم قرار دیدیا گیا ہے، تا کہ وہ توبہ کی طرف مائل ہوں اور بخشے جائیں۔
تو پھر مسلمان کس طرح سے جنت میں داخل ہونگے؟
اللہ مسلمانوں کے گناہ اور نیکیاں پلڑے میں تولتا ہے، (سورۃ 7اسکی 8 تا 9 آیات؛ 21:47؛ 23 اس کی 101 تا 103 آیات) اگر عمل صالح، برے اعمال سے زیادہ ہوں تو جنت میں داخلہ یقینی ہے۔ اس سلسلہ میں مسلمانوں کی مدد کے لئے اللہ فرماتا ہے ” جو صغیرہ گناہوں کے سوا بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں۔ بےشک تمہارا پروردگار بڑی بخشش والا ہے۔” (سورۃ 53:32)نیک اعمال، گناہوں کو مٹا دیتے ہیں (سورۃ 5:39؛ 11:114؛ البخاری ، حدیث نمبر 504، جلد نمبر 1) اس جہاں میں سزا کا مطلب، اگلے جہاں میں کوئی سزا نہیں (البخاری،حدیث نمبر 17، جلد نمبر 1)
علاوہ ازیں، قرآن کا ہر حروف جو عربی میں پڑھا جائے، دس نیکیوں کے مترادف ہے، یعنی عربی میں قرآن پڑھنے والوں کے حصہ میں دس نیکیاں ڈال دی جاتی ہیں
(ترمزی ، حدیث نمبر 2327، جلد نمبر 3) عمل صالح کئی گنا بڑھ جاتے ہیں، 700 مرتبہ (سورۃ 4:40؛ 6:160؛ البخاری حدیث نمبر 40، جلد نمبر 1اور بآسانی دستیاب ہیں (البخاری ، حدیث نمبر 112، 114، جلد نمبر 4؛ حدیث نمبر 335، 412 ، جلد نمبر 9، حدیث نمبر 507)۔ کلمہ شہادت پڑھنے کی صورت میں دس نیکیاں آپ کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہیں۔
ان تمام باتوں سے ہمیں یہ تاثر ملتا ہے، کہ نہ صرف گناہ بآسانی قابلِ معافی ہیں ، بلکہ جنت میں دخول بھی یقینی ہے ۔ بہرحال، اللہ کی جانب سے الہام کے زیر اثر یہ بتلاتا ہے کہ عمال صالح کی بدولت جنت میں داخل نہیں ہوا جاسکتا۔ (البخاری، حدیث نمبر 577، جلد نمبر 7؛ حدیث نمبر 474، جلد نمبر 8)ایسا ممکن ہے کہ اللہ تعالی آپ کو معاف نہ فرمائے! (سورۃ 4:116) آخری خلیفہ فرماتے ہیں: ” خدا کی قسم، اگر میں ایک پاؤں جنت میں ہوں میں تب بھی میں، اللہ کے مکر سے محفوظ نہیں!” ( خالد محمد خالد، رسول کے جانشن)
خلاصہ :
ہم نے دیکھا کہ دینِ اسلام کو گناہ کی سنگینی پر کوئی اعتراض نہیں، بلکہ گناہ بآسانی معاف ہو سکتے ہیں۔ جبکہ مسیحیت میں معافی نیک کے اعمال کے ذریعے سے ممکن نہیں، اور اس اصول پر کوئ سمجھوتہ نہیں کرتی ۔ ہمارے دلوں، دماغوں کو بدلنا ہی اولین ترجیح ہے۔ مسیحیت میں گناہوں کی معافی صرف اور صرف جناب ِ مسیح کے کفارہ بخش خون کے ذریعے سے ہی ممکن ہے ، جبکہ اسلام کفارہ کا منکر ہے ، سورۃ 4:112؛ اور سورۃ 17:15 ملاحظہ کیجیئے)
پاکیزگی سے متعلق کتاب مقدس کا خدا اور قرآن کا اللہ دو مختلف آراء رکھتے ہیں، اللہ نےمسلمانوں کو من مانی کرنے کی اجازت دی رکھی ہے اور چاہتا ہے کہ مسلمان گناہ کے مرتکب ہوں؛ جبکہ یہواہ ، دل، جان اور جسم کی تقدیس کا تقاضا کرتاہے (انجیل بمطابق متی رسول 5:28) ایسا ممکن نہیں کہ وہ گناہ کے سسب آلودہ نہ ہوں اور پھر خداوند مسیح کے کفارہ بخش خون کے بغیر بہشت میں داخل ہو سکیں۔ صرف جنابِ مسیح کی راستبازی ہی نجات بخشتی ہے اور بہشت میں داخل ہونیکا واحد راستہ ہے۔