مولوی محمد علی صاحب مرحوم اپنی محمد اینڈ کرائسٹ (Muhammad and Christ) نامی کتاب میں لکھتے ہیں کہ (مسیح کی پیدائش کی فضیلت کی دلیل یہ ہے ) ” مسیح کی پیدائش کی معجزانہ خاصیت قرآن سے ظاہر ہے۔ ا سکی خوشخبری (حضرت) مریم جبرائیل کے ذریعے سے دی گئی ،،،،،،، اس دلیل کے دوحصے ہیں ۔ کہ مسیح کی پیدائش معجزانہ تھی۔ ۲ کہ اس کی خوشخبری (حضرت ) مریم کو دی گئی۔ پہلے تو ہم پہلے حصہ کو لیتے ہیں۔ معجزانہ سے جوکچھ مراد ہے اُس کوہرگز بیان نہیں کیا گیا ۔ اور نہ قرآن مجید کی کوئی آیت ہی پیش کی ہے”۔

جواب:حقائق قرآن مسیحیوں کا شائع کردہ ایک پمفلٹ ہے جس میں قرآن اورحدیث سے چودہ باتوں میں سیدنا مسیح کی فضیلت ثابت کی گئی ہے۔ اُس رسالہ کے رد میں مولوی صاحب مرحوم نے” محمد اینڈ کرائسٹ ” نامی کتاب لکھی تھی۔ اس رسالہ کی تردید میں مسیح کی پیدائش کے بارے میں مولوی صاحب نے جوکچھ لکھا یہ مضمون اُس کے ابتدائی حصہ کے جواب میں ہے۔ جو کچھ رسالہ حقائق قرآن کے اس دعویٰ سے مُراد ہے اسے سب مسلمان جانتے ہیں اورمانتے ہیں۔ اورمولوی صاحب بھی جانتے تھے مگر مانتے نہیں تھے اوراس میں قرآن مجید کی کوئی آیت اس لئے پیش نہیں کی گئی تھی کیونکہ اس کے پیش کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔اس لئے کہ سب مسلمان جانتے ہیں کہ قرآن مجید سیدنا مسیح کی فوق الفطرت اورمعجزانہ پیدائش کی تعلیم دیتاہے ۔ اورصرف قرآن مجید ہی نہیں بلکہ قرآن مجید کی بنا پر حدیث شریف بھی سیدنا مسیح کی معجزانہ پیدائش کی تعلیم دیتی ہے۔ ملاحظہ ہو۔ صحیح بخاری سیپارہ ۱۳۔ صرف لاہوری مرزائی فرقہ ہی اس سے منکر ہے۔

مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ” پاک کتاب یسوع کے بارے میں فرماتی ہے کہ وہ عام انسانی بچوں کی طرح پیدا ہوا ۔ اس کا واضح بیان سورہ مریم میں ہے۔تب اُ سنے اُسے حمل میں لیا۔ پھر اجس کے ساتھ دور کے مقام میں چلی گئی ۔ اوردردزہ نے اُسے کھجور کے تنے کے پاس جانے کے لئے مجبور کیا۔ اُس نے کہا کاش کہ میں اس سے پہلے مرچکی ہوتی اوربالکل بھولی بسری ہوتی۔ اس سے ظاہر ہے کہ حضرت مریم نے اُسی عام طریقہ سے سیدنا مسیح کو حمل میں لیا جس طریقہ سے عورتیں بچوں کو حمل میں لیتی ہیں اوراُس نے اُسی مروجہ طریقہ سے اُس کو جنا جس سے عورتیں بچوں کو جنتی ہیں۔ حمل میں لینے اورجننے میں کوئی معجزہ اورکوئی انوکھا پن نہیں۔ قرآن مجید میں ایسی آیت کوئی نہیں جویہ بیان کرتی ہو کہ (حضرت ) مریم نے روح القدس سے سیدنا مسیح کو حمل میں لے لیا۔

جواب : قرآن مجید سے کوئی ایک آیت بھی پیش نہیں کی جاسکتی جس میں یہ بیان کیا گیا ہوکہ حضرت مریم کا سیدنا مسیح کو حمل میں لینا اورجننا عام اورمروجہ طریقوں کے مطابق تھا۔ قرآن مجید سے کوئی ایک آیت بھی پیش نہیں کی جاسکتی جس سے یہ ظاہر ہو کہ سیدنا عیسیٰ کے حمل میں لئے جانے اورجنے جانے میں کوئی معجزہ اورکوئی انوکھا پن نہیں۔ مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ نہیں لکھا کہ مسیح روح القدس سے پیدا ہوا۔

جواب: مگریہ تولکھا ہے کہ سیدنا مسیح کی پیدائش کا پیغام فرشتے لائے۔ یہ سورہ آل عمران میں ہے اور سورہ مریم میں یہ ہے کہ اللہ نے حضرت مریم کے پاس اپنی روح کو بھیجا۔

اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ میرے لئے یہ آسان ہے۔ کسی مشکل کام کی طرف اشارہ ہے یہ فوق الفطرت کام کی طرف اشارہ ہے ” اوریہ کام ٹھہر چکا ہے” سے بھی یہی ظاہر ہوتاہے کہ یہ عام کام نہیں بلکہ خاص کام ہے۔ پس سیدنا مسیح کی پیدائش کا کام جوازل سے ٹھہر چکا ہوا تھا۔ عام طریقہ کی پیدائش نہیں ہوسکتی۔ اگریہ عام طریقہ کی فطری پیدائش ہوتی تواس کے بارے میں یہ فرمانے کی کیا ضرورت تھی کہ یہ کام ٹھہر چکا ہے۔جب کہ یہ پیدائش بھی ہر عام انسانی پیدائش کی طرح ہونے والی تھی تو یہ کام ٹھہر چکا ہے” کے کیا معنی ؟ اس کا مطلب تویہ ہے کہ یہ کام ٹھہر چکا ہے یعنی بن باپ کے ہو اور یہ مجھ پر آسان ہے ، یعنی سیدنا مسیح کا بغیر باپ کے صرف والدہ سے پیدا آسان ہے۔ سورہ انبیاء میں ہے” اوروہ جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظ کی اورہم نے اپنی روح پھونک دی اورہم نے اُسے اوراُس کے بیٹے کے عالموں کے لئے نشانی بنایا ” انبیاء رکوع ۶آیت۹۱۔ ” اورہم نے ابن مریم اوراُس کی ماں کو نشان بنایا”۔ سورہ مومنوں یہاں مقامِ غور ہے کہ ماں بیٹا دونوں ایک نشان ہیں اورجہان کے لئے نشان ہیں۔ وہ دونوں کس بات کا نشان ہیں؟مسیح کی پیدائش کے بارے میں خدا کی قدرت کا۔

مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ” کیا سیدنا عیسٰی بغیر باپ کے حمل میں لائے گئے تھے؟ جیسے میں کہہ چکاہوں، قرآن مجید اس کا جواب اثبات میں نہیں دیتا اور نہ آنحضرت صلعم کی کوئی ایسی حدیث ہی مرقوم ہے ۔ ” جواباًعرض ہے کہ مولوی صاحب بالکل غلط فرماتےہیں کہ قرآن مجید اس کا جواب اثبات میں نہیں دیتا، مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ جیسے میں کہہ چکاہوں جیسے مولوی صاحب کہہ چکے ہیں وہ بالکل غلط اورقرآن مجید کے خلاف ہے۔اگرسیدنا مسیح قدرتی طورپر پیدا ہوئے ہوتے تولوگوں نے کیوں کہا کہ” اے مریم یہ تو کیا عجیب چیز لے آئی ہے۔ نہ تیری ماں بدکار تھی اورنہ تیرا باپ بُرا آدمی تھا”۔اس سے ظاہر ہے کہ جب سیدنا مسیح پیدا ہوئے تواُس وقت حضرت مریم کنواری تھیں اورسیدنا مسیح کی باکرانہ پیدائش کے بارے میں قرآن مجید اثبات میں جواب دیتاہے۔ سیدنا مسیح نے فرمایا کہ مجھ کو میری ماں کے ساتھ خوش سلوک بنایا۔ کیا اِس سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ سیدنا مسیح کی صرف ماں ہی ماں تھیں۔ باپ نہیں تھا، ورنہ یہ کیوں کہا جاتا کہ مجھ کو میری ماں کے ساتھ خوش سلوک بنایا۔ اگرسیدنا مسیح کنواری سے پیدا نہیں ہوئے تھے تو پیدائش کے روزاُن کی باتیں کرنے کے معجزہ کی کیا ضرورت تھی؟اِس پر یہودی لوگوں کے بزرگ توخاموش اورلاجواب ہوگئے۔ لیکن لاہوری احمدی کے فرقہ کے مرزائی خاموش نہیں ہوتے۔ یہ اپنی ریشنیلیزم برابرچھانٹتے چلے جاتے ہیں۔حضرت مریم نے فرمایا کہ میرے یہاں لڑکا کیونکر ہوگا ۔ جب کہ مجھے کسی مرد نے نہیں چھوتا توخدا کی روح نے یافرشتہ نے کہا کہ اسی طرح یعنی جس طرح تونے کہا ہے۔اسی طرح کسی مرد کے تجھے نہ چھونے کی حالت میں یایوں سمجھو کہ کنوارپن کی حالت میں ہوگا۔ پھر قرآن مجید فرماتاہے کہ ہم نے اُس میں اپنی روح کو پھونکا توآدم بغیر ماں باپ کے پیدا ہوا۔سیدنا مسیح میں خدا نے اپنی روح کو پھونکا توسیدنا مسیح بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ جب وہ فرماتاہےکہ ہوجا توہوجاتا ہے۔ اس سے بھی فعلِ تخلیق مراد ہے۔ اوربھاری کام کاہونامراد ہے یعنی سیدنامسیح نطفہ سے پیدا نہیں ہوئے۔بلکہ اپنی ماں کے بطنِ اطہر میں خلق کئے گئے ۔ حضرت مریم کا یہ فرمانا کہ کاش میں بھولی بسری ہوجاتی یہ اُنہوں نے مسیح کی پیدائش کے وقت بدنامی کے ڈ ر سے فرمایا۔ اگروہ بچہ حضرت مریم کے خاوند سےہوتا توحضرت مریم کو اس بات کے کہنے کی ضرورت نہ ہوتی۔اس بات سے صاف عیاں ہے اوریہ سورج سے بھی بڑھ کر روشن ہے کہ مسیح کی پیدائش کےوقت حضرت مریم کنواری تھیں۔ سیدنامسیح کی پیدائش کے روز حضرت مریم نے خاموشی کا روزہ رکھا۔ اس میں بھی یہی مصلحت کہ حضرت مریم پر بہتان لگایا جانے کو تھا۔ اُس سے بریت خود مسیح کرے۔ مسیح نے اُس جھوٹے الزام کا جھوٹا ہونا ثابت کرے۔ حضرت مریم کی پاک دامنی اور عصمت ثابت کرے اورحضرت مریم کو بولنے کی ضرورت نہ پڑے کیونکہ حضرت مریم کا اپنے حق میں گواہی دینا فضول اوربیکار ہوتا۔ پس الہٰی حکمت نے حضرت مریم سے خاموشی کا روزہ رکھوایا۔اورسیدنا مسیح سے اُس بہتان کی بریت کروائی اوراس سے یہ ثابت ہواکہ مسیح حضرت مریم سے اُس کے کنوارپن میں پیدا ہوئے۔پس مولوی صاحب کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ قرآن مجید اس کاجواب اثبات میں نہیں دیتا۔ قرآن مجید میں لکھا ہے کہ” بےشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مثال ہے” سورہ آل عمران رکوع ۶ آیت ۵۲۔ عیسیٰ کس بات میں آدم کی مثال ہے؟ پیدائش کے معاملہ میں، آدم بھی بن باپ پیدا ہوا اوراُس کی طرح سیدنا مسیح بھی بن باپ کے پیداہوئے۔قرآن مجید اور حدیث شریف میں سیدنا مسیح کو ابنِ مریم فرمایا گیاہے اوراُن کے والد کا قعطاً کوئی ذکر نہیں۔سیدنا مسیح کو ابن مریم کہنے کا بھی یہی مطلب ہے کہ وہ کنواری مریم سے پیدا ہوئے تھے حضرت مریم اورابن مریم کا جہانوں کےلئے نشان ہونا بھی یہی ظاہر کرتاہے کہ جیسے مولوی صاحب کہہ چکے ہیں وہ بالضرور غلط ہے۔

مولوی صاحب لکھتےہیں کہ ” ایسا نقطہ نہیں جس پر ساری مسلم دنیا متفق ہو”۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سنی ،شعیہ ، وہابی وغیرہ سب اس پر متفق ہیں۔اگرمسلم دنیا سے غیر مرزائی مسلم دنیا اورساری مسلم دنیا اس نقطہ پر ضرور متفق ہےاوراگر اس سے مرزائی اورغیر مرزائی مسلم دنیا متفق ہے توپھر لاہوری مرزائی فرقہ کے سوا باقی ساری دنیا مسلم دنیا اس پر متفق ہے۔ یہاں تک کہ ربوی بھی سیدنا مسیح کی باکرانہ پیدائش کو مانتاہے۔ صرف لاہوری مرزائی فرقہ ہی اس مسئلہ کے خلاف اور اُن سب سے متفرق ہے۔ اس کا انکار نرالہ اورانوکھا ہے ۔ گویایہ فرقہ ہی مسلم دنیا سے اس مسئلہ کے بارے میں الگ ہونے کی حیثیت سےسخت غلطی پر ہے اور ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بناتاہے۔

مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ اگرمسئلہ کو اثبات ہی میں سمجھ لیاجائے توپھر بھی اس سے کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوتی کیونکہ وہ انبیاء جوقدرتی طریقہ کے مطابق پیدا ہوئے۔ اُنہوں نے نہایت ہی زیادہ کام کیا”۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مولوی صاحب سیدنا مسیح کی پیدائش کے اس طریقہ کو غیر نارمل کہتے ہیں۔ حالانکہ اسے فوق الفطرت یا معجزانہ طریق کہنا چاہیے۔ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ اس سے مسیح کوکوئی فضیلت حاصل نہیں ہوتی۔ مولوی صاحب کا یہ دعویٰ بھی سراسر غلط اورباطل ہے کیونکہ یہ قرآن مجید کے خلاف ہے۔ قرآن مجید میں لکھا ہےکہ یہ پیدائش جہانوں کے لئے نشان ہے۔ کیا اس سے سیدنا مسیح کی فضیلت ظاہر نہیں ہوتی؟ اور کون سی پیدائش جہانوں کے لئے نشان ہے؟ یہ پیدائش آدم کی پیدائش کی مثال ہے۔ یہ پیدائش نطفہ سے نہیں بلکہ خدا کے اپنی روح پھونکنے سے ہوئی۔ کیا یہ فضیلت نہیں؟ یہ پیدائش خلق کرنے سے ہوئی۔ یہ کام خداکا بہت بڑا کام تھا۔اس پیدائش میں مرد کا دخل نہ ہونے کے باعث یہ پیدائش پاک پیدائش تھی۔خدا کی قدرت کا نشان ہونے کے باعث یہ پیدائش بذاتِ خودافضل ہے یہ پاک پیدائش ہے اورنہایت ہی پاکیزگی کی صورت میں وقوع میں آئی۔ پس اس کو یقیناً فضیلت حاصل ہے۔قدرتی پیدائش والوں کا بہت کام کرنا علیحدہٰ بات ہے اورسیدنامسیح نےکسی قدرتی پیدائش والے سے کم کام نہیں کیا۔ اُ نہوں نے تقریباً تین سال تبلیغ کی اوراُن کےدشمن کہتے تھے کہ دیکھو سارا جہان اُس کے پیچھے لگ گیاہے۔ اتنے قلیل عرصہ کی تبلیغ کے باوجود اُن کی اُمت اب پچاس کروڑ کے قریب ہے۔ مگر جوبیسیوں برس کام کرتے رہے ۔ اُن کے پیرومشکل سے اس تعداد کا تیسرا حصہ ہیں۔ مسیحیت زورزبردستی سے نہیں پھیلائی گئی ۔ یہ تواپنی جان پر مصیبتیں لاکر اور خدا کی راہ میں پُر امن طریقہ سےجانیں ۔ قربان کرکے پھیلائی گئی ہے۔ سیدنا مسیح نے سچائی اُس کی انتہائی صورت میں پیش کی۔ وہ سارا دن تبلیغ کرتے رہتے تھے۔ ساری ساری رات دعا مانگتے رہتے تھے۔ رحم اورمحبت کے ہزارہا کام کرنےکےلئے ہزاروں معجزات کئے۔ بے مثل پاک او معصوم اوربے عیب زندگی گذاری۔ وہ ہر وقت نیکی ہی نیکی کرتے تھے۔ اُنہوں نے خدا کی راہ میں نوع انسان کے لئے اپنی جان قربان کردی۔وہ تیسرے روز مرُدوں میں سے جی اٹھے ۔ جی اٹھنے کے چالیس دن بعد وہ دن کی روشنی میں اپنے رسولوں کودیکھتے ہوئے آسمان پر تشریف لے گئے۔کسی قدرتی پیدائش والے نے ایسے کام اوراتنے کام کئے ہیں؟ کسی قدرتی پیدائش والے نے اُس کام کا ایک شمہ بھی نہیں کیا۔ جوکام سیدنامسیح نے خود کئے اور جواپنی اُمت کے افراد سے یعنی اپنے اُمتوں سے کراتے رہتے اورجو وہ خود کرتے اوراپنے اُمتوں سے کراتے رہے گے۔ اس لئے وہ ابد تک زندہ ہیں۔