صلیبی جنگیں

اسلام اور مسیحیت کے مابین تعلقات سے متعلق غلط فہمیاں اکثر اوقات صلیبی جنگوں کی اصل حقیقت سے لاعملی کی بنا پر ہوتی ہیں ۔ اہل مغرب کو یہ بتلایا جاتا ہے کہ مسلمان ، مسیحی اور یہودی ایک پرامن ماحول میں مل جل کر رہ رہے تھے! کیا واقعی ایسا ہی تھا؟

فلسطین کے حالات:

12 صدی عیسوی میں ملک شام کا ایک بزرگ مسیحی جس کا تعلق یعقوبی فرقے سے تھا ، گزشتہ دور کے متعلقہ دور کے ذرائع اپنی مشہور زمانہ سرگزشت میں اختصار کے ساتھ فلسطین میں مسیحیوں کے موجودہ حالات کچھ اس طرح سے بیان کرتا ہے :

"ترک شام اور فلسطین پر حکمران تھے ، وہ ان مسیحیوں پر مظالم ڈھایا کرتے تھے جو یروشلیم میں عبادت کے لئے جاتے تھے ، وہ انہیں مارتے پیٹتے ، لوٹتے، شہر کے مرکزی دروازے اور گلگتا اور القبر المقدس پہ مسیحیوں سے سروے ٹیکس اور جزیہ وصول کرتے ، اور مزید یہ کہ وہ ہر اس کارواں کو جو روم یا اٹلی سے آتا تھا ، پوری کوشش کرتے کہ انہیں کسی نہ کسی طرح موت کے گھاٹ اتار دیں۔ اور جب بہت سے مسیحی تباہ وبرباد ہوگئے تو جذبہ ایمانی کے تحت بہت سے بادشاہ اور رؤسا ایک جگہ جمع ہوگئے اور شہر روم سے رخت سفر باندھا اور قسطنطنیہ میں آ پہنچے۔

First Crusade (1096-99). (The Decline of Eastern Christianity under Islam, 1996.p.292-293)

سنہء 1095 ، محمد کی رحلت کے 463 سال بعد جو پہلی صلیبی جنگ لڑی گئی وہ اصل میں ایزارسانیوں میں مبتلا ان مسیحیوں کی التجاؤں کا جو ارض مقدس میں مقیم تھے جواب تھی ۔ مسیحی قوم جو ایک وقت میں وہاں پر اکثریت میں تھی اب خود کو  ایک پسی ہوئی اقلیت میں دیکھ رہی تھی ۔ پرامن طریقے  سنہء 632 عیسوی میں محمد وفات پاگیا ، اس دوران میں مسلمان اور مسیحی کس   سے ایکدوسرے کے ساتھ مل جلکر رہے ، قابل ذکر ہے۔

مسلمانوں کیساتھ پرامن رفاقت:

جب محمد بستر مرگ پر اپنی آخری سانسیں گن رہا تھا ، اس نے اپنے پیرؤکاروں کو حکم جاری کیا کہ غیر مسلمانوں جزیرہ عرب سے خارج کردو (البخاری ، حدیث نمبر 716، جلد نمبر 5) کوئی رعائیت نہیں دی گئی !

خلیفہ عمر ، میثاق عمر کے حوالے سے کافی مشہور ہے، جسمیں دیگر چیزوں کے علاوہ مسیحیوں کی تذلیل اور اسلام نہ قبول کرنے کی صورت میں مسیحیوں اور یہودیوں کے ہتک آمیز اہانت کے حوالے سے کافی تفیصلات موجود ہیں۔ یہ میثاق سورۃ 9:29 اور 9:5 میں موجود محمد اور اللہ کی ہدایات کے مطابق تیار کیا گیا تھا۔ ( مزید دیکھئے ابن کثیر کی سورۃ 9:29 کی تفسیر)

سورۃ9:29 :قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ

جو اہل کتاب میں سے خدا پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روز آخرت پر (یقین رکھتے ہیں) اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو خدا اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔

سورۃ 9:5فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

جب عزت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو اور پکڑلو اور گھیرلو اور ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھے رہو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے۔

وہ ریاستیں جو بحیرہ روم کی سرحدوں پر واقع ہیں، محمد کی وفات سے لیکر پہلی صلیبی جنگوں تک، یعنی 463 سالوں تک مسلمانوں کے خونی حملوں کے شکار رہیں، جن کا مقصد لوٹ مار سے مال حاصل کرنا ، (قیمتی پتھر، دھاتیں اور غلام) اسلام کو پھیلانا ، گرجاگھروں کو ڈھانا اور مسیحیت کو نیست و نابود کرنا تھا۔ انہوں نے شام، شمالی افریقہ، ساردینہ اور اسپین کا بیشتر علاقہ اپنے قبضہ میں کرلیا۔ وہ اکثر و بیشتر فرانس ، اٹلی اور ایڈرائٹیک ریاستوں پر حملہ آور ہوتے رہتے تھے۔

تاریخ دان جناب پال سٹین ہاؤس 1095 کی پہلی صلیبی جنگ سے پہلے مسلمانوں کی جنگوں فہرست فراہم کرتے ہیں ۔

(Crusades in Context,’ Annuls Australia, July 2007)

وفات محمد (632 عیسوی)

مسوپتامیہ کی شکست    633

دمشق                      635

یروشلم                     638

اسکندریہ                   645

قبرص                      649

قسطنطنیہ پر حملہ        673

تمام مسیحی شمالی افریقہ پر غلبہ693                          

اسپین پر حملہ    711

سارگوسہ پر غلبہ          721

پوئیٹیز                       732

آواگون                       734

لیونز                   743

اسپین کی بندرگاہ کی تباہی813                          

کریت (961 تک)                    826

نیپلز کی تباہی           837             

مارسلیز                                838

سسلی                                   842-859

روم ایکبار پھر تباہ       846

مالتے                                    870

صلیبی جنگوں سے 223 سال پہلے !

سیراکوس مغلوب ہوا (9 مہینے کا محاصرہ؛ زندہ بچ جانیوالوں کی قلیل تعداد)       878

تولون (شمالی اٹلی)                  889

وسطی یونان ، تھیسلے نذرِآتش اور برباد کیا گیا      902

921 عیسوی میں انگریز عقیدتمندوں کا ایک انبوہ کثیر روم میں رسولوں کے مقبروں کی زیارت پر روانہ ہوا، جنہیں راستے میں سارکینوں نے آلپس کے دروں پر پہاڑوں کی چٹانیں گرا کر کچل دیا۔

 جنیوا پر حملہ کیا گیا                   935

اٹلی پر ایک اور حملہ                   976

جنوبی اٹلی (کوسنزا) مغلوب ہوا        1010

ساردینا                                     1015

سنہء 1017 عیسوی میں مجاہد بن عبداللہ (سردینا کا حکمران) نے پوپ کو ایک پیغام کہلا بھیجا کہ وہ روم پر موسمِ بہار میں حملہ کردیگا۔ بجائے اس کے موسم بہار کا انتظار کیا جاتا، پوپ نے اس پر فوج کیساتھ چڑھائی کردی ، جب بینڈکیٹ سردینا میں پہنچے تو انہیں یہ دیکھ کر دھچکا لگا کہ مجاہد ، ساردینا کے مسیحیوں کو مصلوب کر رہا تھا، مجاہد بھاگ گیا۔

یقنناً آپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ مسیحی ، یہودی اور مسلمان کتنے میل ملاپ سے رہا کرتے تھے، صریحا جھوٹ ہے ۔ یہ معمولی نوعیت کی مثالیں ہیں جن کا تعلق اسلام کے سنہری دور سے ہے۔ مسلمان 1095 میں لڑی گئی پہلی صلیبی جنگ کے بعد ، غیر مسیحیوں سے متواتر جنگیؐں لڑتے رہے جو 1683 میں ویانا میں اپنے عروج پر ختم ہوئی ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمان فوجیں کتنی آگے تک بڑھ چکیں تھیں۔ ان کا غلبہ کسی طور پر بھی پر امن نہیں مانا جاسکتا۔ اور نہ ہی کبھی وہاں پرامن باہمی تعلقات تھے۔

خلیفہ عمر نے اپنے ایک سپہ سالار کو جسے تاریخ میں ارفجا کے نام سے جانا جاتا ہے ، ہدایات دیں ، ” کہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دو، اور جو تمہاری دعوت کو قبول کرلیں ، (ان کی تبدیلی اسلام کو صحیح جانو) اور جو دعوت اسلام کو قبول کرنے سے انکاری ہوں ، ان کو عزت و ناموس کو خاک میں ملا کر جزیہ وصول کرو۔ اور اگر وہ پھر بھی انکاری ہوں تو پھر بے رحم تلوار ہی فیصلہ کرے۔

اور خدا سے ڈرو اس خدمت کے لئے جو تمہیں سونپی گئی ہے ۔

The History of al Tabri, The Battle of al-Qadisiyaah and the Conquest of Syria and Palestine (vol.12), [2383].p167)

کچھ لوگوں نے (جیسے کہ مصر کی کلیسیاء) نے مسلمانوں کو خوش آمدید کہا، کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کوظالم بزنطینی حریفوں سے بہتر متبادل سمجھا۔ اور بہت جلد ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ بہت جلد ہی ان پر انکی کمائی کا 80٪ جزیہ کی صورت میں (حفاظتی) ٹیکس لگا دیا گیا ۔ (محمد مفتوح لوگوں سے 50٪ ٹیکس وصول کیا کرتا تھا) اور میثاق عمر پر نہائیت سفاکی سے لوگوں پر لاگو کیا گیا۔

جیسے کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ پہلی صلیبی جنگوں کو مقصد اسلام کو صحفہ ہستی سے ختم کرنا نہیں تھا۔ اور اپنے سفر کے دوران مسلمانوں کے علاقوں سے بآسانی گزر جایا کرتے تھے ، بلکہ ملسمانوں کے تجارتی کاروانوں کو مسلح محافظت بھی فراہم کیا کرتے تھے ، کیونکہ ان کا مقصد یروشلیم میں موجود مقدس مقامات کی حفاظت کرنا تھا۔ گو کہ بعض مرتبہ صلیبی جنگیں سفاکانہ نوعیت کی ہوتیں تھیں اور مسیحیوں کی جانب سے انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا تھا ، لیکن جو بربرئیت مسلمانوں نے گزشتہ 500 سالوں میں دکھائی ، ان سے بہرحال بہتر تھیں۔

 مسلمان صرف اللہ کی جانب سے بھیجے گئے الہام پر ہی عمل پیرا تھے، کہ اسلام پوری دنیا پر غالب آکر رہیگا (سورۃ 2:193؛ 9:33؛ 61:9) مسیحیوں نے جناب مسیح کے نقش قدم پر چلنا گوارا کیا ، کہ اپنا دوسرا گال بھی ان کی جانب کردیا، جب تک کہ سب کچھ برداشت سے باہر ہوگیا۔

محمد "پیغمبر برائے تلوار” کے نام سے  بخوبی جانا جاتا ہے ، (اس نے 81 جنگوں کی منصوبہ بندی کی اور لڑیں ) اور تلوار استعمال کرنے کی اجازت دی کہ لوگوں کو زبردستی مسلمان کیا جائے ۔ حالانکہ اللہ کو ان مسلمانوں سے نفرت ہے جو دل سے ملسمان نہیں ہوتے۔ مسلمانوں نے اللہ اور قرآن کی فرمانبرداری کرتے ہوئے لوگوں کو قتل کیا اور ان کے علاقوں پر اپنا قبضہ جمایا، مسیحیوں نے جب حملے کیے اور لوگوں کو قتل کیا تو انہوں نے جناب مسیح کی فرمانبرداری سے سرکشی کی۔

"یسوع نے اس سے کہا میاں! جس کام کو آیا ہے وہ کرلے۔ اس پر انہوں نے پاس آکر یسوع پر ہاتھ ڈالا اور اسے پکڑلیا۔ اور دیکھو یسوع کے ساتھیوں میں سے ایک نے ہاتھ بڑھا کر اپنی تلوار کھینچی اور سردار کاہن کے نوکر پر چلا کر اس کا کان اڑا دیا۔ یسوع نے اس سے کہا اپنی تلوار کو میان میں کرلے کیونکہ جو تلوار کھینچتے ہیں وہ تلوار سے ہلاک کئے جائینگے۔ ” ( انجیل شریف معرفت متی رسول اس کا 26 باب اس کی 50 تا 52 آیات)

جو مواد یہاں مہیا کیا گیا ہے ممکن ہے آپ کے اذہان میں بہت سے سوالات کو ابھارنے کا سبب بنا ہوا ۔ مسلمانوں کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ اس کلام مقدس کو جو مسیحیوں اور یہودیوں کو دیا گیا ہے پڑھیں، (سورۃ 10 اس کی 94 تا 95 آیات؛ اور 2:41) ۔ اور اگر آپ اس مغالطے کا شکار ہیں کہ وہ کتب اپنی اصل حالت میں موجود نہیں تو اللہ کا فرمان ہے کہ اس کا کلام لاتبدیل ہے ، (سورۃ 6:115؛ سورۃ 10 اس کی 64 تا 65؛ 18:27؛ 48:23)

اگر آپ کوئی سوال کے حوالے سے گفت و شنید کرنا چاہیں تو ہم سے رابطہ کیجیئے۔