یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ ہم تندہی سے اُس کے الہام کی حقیقت کو تلاش کریں جس کے ذریعے اُس نے اپنا کلام نازل کیا ہے۔اوراگرہم ایسا کرتے ہیں کہ توخدا تعالیٰ ہماری راہنمائی کرے گا۔کلام الہٰی میں سینکڑوں ایسی پیشین گوئیاں ہیں جن کا نقطہ نظر جناب مسیح کی ذاتِ اقدس ہے۔ جیسے کہ قرآن شریف کی سورہ 43کی آیت 63 میں مسیح فرماتے ہیں”فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ ترجمہ:خدا سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔اورپھر سورہ 7کی آیت 178 میں مسلمانوں کو حکم ملا ہےکہ مسیح اور انجیل اور توریت پر ایمان لائیں۔مسلمانوں کو یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ انبیاء کرام مسیح کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔
(تاہم بہت سےلوگ اس غلطی فہمی کا شکار ہیں کہ نعوذ باللہ انجیل شریف میں تحریف ہوئی ہے۔لیکن یہ جاننے کے لئے کلام الہٰی میں کوئی تحریف نہیں ہوئی اس کے لئے آپ ہمارا کتابچہ (حقانیت کتاب مقدس ) ضرور مطالعہ فرمائیں۔
اہلِ یہود کے لئے یہ بات واقع بہت مشکل ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ کو اپنا مسیح موعود (یونانی لفظ کرائسٹ) قبول کریں۔کچھ یہ خیال کرتے تھے کہ وہ آپ اُستادِ عظیم ہیں۔ کچھ کہتے تھے کہ آپ نبی ہیں۔ دوسری جانب کچھ لوگ یہ کہتے تھے کہ مسیح جو معجزات کرتے ہیں وہ شیطان کی مدد سے کرتے ہیں۔ بعض یہ کہتے تھے کہ جیسے کہ اُن میں ہیرودیس بادشاہ تھا جس کا یہ خیال تھاکہ آپ حضرت یحییٰ اصطباغی ہیں جو مردوں میں سے جی اٹھے ہیں۔بعض نے آپ کو بادشاہ بنانے کی کوشش کی۔اور باقیوں نے آپ کو مسیح موعود تسلیم کرلیا۔
وہ لوگ جو یہودی توراۃ میں متلاشی خدا ہیں وہ اس بات سے واقف ہوجاتے ہیں کہ مسیح موعود کی دوایسی خصوصیات ہیں جو ایک دوسرے سے تضاد ہیں۔ پہلی کہ وہ "مسیح موعود دکھ اٹھائے گا”۔ اور دوسرا” مسیح موعود بادشاہ ہوگا”۔تاج کی طرف جانے کاراستہ صلیب ہے۔مسیح ہونے کی وجہ سے خدا کاکلمہ لامحدود قدوقامت رکھتاہے۔ لیکن ہماری نجات کی خاطر اس کا دکھ اٹھانالازمی تھا جیسے کہ بہت سے انبیاء کرام اس کی پیدائش سے سینکڑوں اور ہزاروں برس پہلے پیشین گوئیاں کیں۔
مندرجہ ذیل حوالہ جات کے ایک جامع فہرست نہیں ہیں: