قرضداروں کا شہر
بہت بر س گزرے ایسا واقع ہو کہ میں سیر کرتے ہوئے ایک شہر کے نزدیک پہنچا کہ ایسا بڑا شہر جسمیں اتنے لوگ آباد ہوں کبھی نہیں دیکھا تھا وہاں ہر طرح کے کام اور پیشے اور کاریگریاں جاری تھیں اور جیسا اور شہروں میں لاگ خرید و فروخت اور جعل و فریب اور لڑائی جھگڑے کرتے ہیں ویسا ہی وہاں بھی کرتے تھے۔ اور سب اور شہروں کے موافق وہاں بھی خوشی اور غم اور لین دین اور محنت و سستی اور نیکی اور بدی ہوتی تھی۔ اُسمیں مدرسہ اور گرجے بھی بنے تھے اور امیروں کے محل اور غریبوں کے جھونپڑے اور تماشہ گاہ اور بازار بھی تھے اورشہر کے سب باشندے اپنے اپنے دل کی مرضی کے مطابق وقت بسر کرتے تھے۔ لیکن اُس شہر کی ایک عجیب خاصیت یہہ تھی کہ اُسکے سب باشندے مرد عورت بوڑھے جوان قرضدار تھے اور ایک بھی ایسا نہ تھا جو اپنا قرض ادا کر سکے۔ اسبات میں سب سے غنی امیر ۔ اور سب سے غریب فقیر برابر تھے۔ کسی کا قرض زیادہ تھا اور کسی کا کم لیکن اِن سب ہزاروں میں ایک بھی ایسا نہ تھا جو اپنا قرض ادا کرے یا رسید حاصل کرے۔
مثل مشہور ہے کہ قرضدار ہے وہ خطرہ میں ہے ۔ چنانچہ اُن میں سے ہر ایک جانتا تھا کہ میں خطرہ میں ہوں اور کسی کو معلوم نہ تھا کہ میں کو نسی گھڑی پکڑا اور جیل خانہ میں ڈالا جاؤنگا۔ لیکن عجیب بات یہہ تھی کہ وہ سب کے سب اپنے کاموں میں لگے رہتے اور اپنے عیش و عشرت کی پیروی کرتے اور زرا بھی اپنی برُی حالت کا خیال نہ کرتے ۔ اور نہ اپنے خطروں سے بچنے کی تدبیر کرتے تھے اور کسی کا یہہ دستور نہ تھا کہ سال کے آخر میں اپنا حساب درست کر کے دریافت کرے کہ سال بھر میں قرض کسقدر بڑھتا یا گھٹتا ہے شائد آپ سوچیں گے کہ وہ سب کے سب پاگل تھے اور حقیقت میں ایسا ہی معلوم ہوتا تھا لیکن شہر کے اکثر لوگ اپنے کو بڑا ہی عقلمند سمجھتے تھے اور قرض کے سوا وہ اور سب باتوں میں ایسے معلوم ہوتے تھے کہ اگر تم اور کسی بات کی بابت گفتگو کرتے تو اُنہیں بہت ہوشیار اور چالاک لوگ سمجھتے لیکن جب اُنکے قرض یا خطروں کا زکر جو قرض کے سبب سے ہوتے ہیں کیا جاتا تھا تب ایک بھی اچھا جواب نہ دیتا تھا ٍ کیونکہ کو ئی طرح طرح کا بہانہ اور کو ئی یہہ وعدہ کرتا تھا کہ میں کسی وقت اسبات کا چرچا کرونگا۔
ایسا نادانی کا زکر سن کر آپ تعجب کروگے لیکن میں نے اُنکے حق میں کسی معتبر شخص سے ایک اور بات سنُی جو زیادہ عجیب نظر آتی ہے کیونکہ اُس زمانہ میں ایک بادشاہ ایسا تھا کہ جسکے برابر دانش اور بزرگی اور مہربانی میں دنیا میں کہیں کو ئی نہ پایا گیا۔ اُسکا بیٹا جو سلطنت کا وارث اور سب صفتوں میں باپ کے موافق تھا اُس شہر میں پہنچا کیونکہ اُن کے باشندوں کے قرضوں اور اُنکی ناچاری کا بیان سُنکر اُسکے دلمیں رحم آیا اور بغیر شان و شوکت کے وہ جلد وہاں گیا اور اس رحمت کا مل کا اشتہار سنایا کہ جو کائی میرے پاس آئے اُسکے سارے قرضوں کو کتنے ہی کیوں نہ ہوں ادا کروں گا اور سب خطروں اور سزاؤں سے اُنہیں بچاؤنگا۔ اس شرط پر کہ وہ اپنے حسابوں کو میرے ہاتھ میں چھوڑ دے اور رہائی اور بھرپور پورا بھروسہ مجھ پر رکھے اور آئیندہ کو میرے نمونہ کے موافق چلے تو مناسب تھا کہ شہر بھر کے لوگ فوراً اُسکے پاس شاہانہ بخشش پانے کے لیے دوڑے جاتے اور اُسکے نیک نمونہ کوا ختیار کرتے کیونکہ اُس سے اچھا نمونہ کہیں نہ تھا لیکن یہہ عجیب بات ہے کہ باشندوں نے اکثر اس مہربانی کا زرا بھی خیال نہ کیا بلکہ اپنے اپنے کام کاج اور خرید و فروخت اور لڑائی جھگڑے اور ناچ تماشہ میں اسیطرح لگے رہے کہ گویا اُنکے شہر میں کو ئی نہ آیا اور نہ اُنپر رحم دکھلایا۔ وہ گھر وں اور بازاروں میں اور سب چیزوں کا چرچا کرتے اور طرح طرحکی باتوں میں مشغول رہتے تھے لیکن شاہزادہ کی مہربانی اور قرضوں کی معافی اور خطروں کی رہائی یہہ باتیں اُنیک گفتگو میں نہ آئیں۔
تب شاہزادہ نے اپنی بے بیان رحمت سے اپنے بہت ایلچیوں اور کارندوں کو ہر کہیں روانہ کیا کہ لوگوں کو اُسکا وعدہ یاد دلائیں اور اُنکو یہہ سمجھائیں کہ وہ ایسا کر سکتے ہے اور کرنے پر مستعد بھی ہے چنانچہ یہہ لوگ ہر کہیں بازاروں اور مدرسوں اور گرجوں وغیرہ مین جاتے اور سنایا کرتے تھے اور شہر کے باشندے کچھ ظاہری طور پر کچھ سنتے بھی تھے لیکن پیچھے اُنکے چال و چلن سے ظاہر ہوا کہ وہ لوگ نہ سنانے والوں پر اور نہ اُنکے پیغام پر دل لگاتے تھے کیونکہ وہ نہ کبھی اپنے گڑ بڑ حساب لیکے شہزادہ کے پاس گئے نہ اُسکے وعدہ کے موافق اُس سے منت کی کہ ّپ ہماری ضمانت کریں۔ لیکن یہہ نہ سمجھے کہ تمام شہر کے لوگ اپنی بھلائی سے ایسے غافل رہے کیونکہ بعض ایسے بھی تھے جو ایلچیوں اور کارندوں کی باتیں سنکے قبول کرتے تھے اور جو لوگ تمسک اور اقرار نامہ ادانکر سکے اور رہتا مراد نہ کر اُس کے اپنے ساتھ لیکے شہزادہ کے پاس گئے اور اُسکی مہربانی سے ہمیشہ کے لیے آزاد اور بے اندیشہ کئے گئے کیونکر شہزادہ نے نہ صرف سبہوں کو تمسکوں اور اقرار ناموں سے آزاد کیا بلکہ یہہ بھی وعدہ کیا کہ اگر تم دانائی اور نیکی سے میری روش پر چلو گے تو میں تمہارے سارے آئیندہ کے قرضوں کا بھی ضامن ہونگا۔
اشخاص مزکورہ میں سے شہر میں کوئی غنی اور کوئی غریب تھا لیکن اُسروز سے ہر ایک کو شہر کے اور باشندوں کی بہ نسبت یہہ بڑا فائدہ ہوا کہ اُنکے کام کاج یا خوشی کے بیچ میں یہہ خطرہ نہ ہوتا تھا کہ شائد آج ہم قرض کے سبب پکڑے اور قید خانہ میں ڈالے جائینگے اور اگرچہ وہ تو تھے لیکن اپنے قرضوں کے دیکھنے سے ڈرتے نہ تھے یہہ جانتے تھے کہ اُسکا بندوبست کر دیا جائیگا۔ کیا تم یہہ نہیں سوچتے کہ ایسے فائیدے کے لیے بہت محنت کرنی لاسزم تھی لیکن اُسکے لیے اتنی محنت بھی کرنی پڑے جتنی اور لوگ کسی چھوٹی نوکریا عہدہ کے لیے کرتے تھے جسکے حاصل کرنے سے بھی اُنکے قرض ادا نہ ہو سکتے بلکہ اور بڑھ جاتے تھے۔ یہہ بات بھی عجیب معلوم ہوتی ہے گر اگرچہ وہ لوگ جو شہزادہ کے وعدہ پر بھروسہ رکھ کے بڑی خوشی حاصل کرتے اور اپنی آزادی اور سلامتی کے لیے بڑی شکرگزاری اور ہر کہیں شہزادہ کی تعریف بجا لانے پر تیار تھے لیکن اُنکے رشتہ دار اور گھرانے کے لوگ بھی اسبات کو خیال میں نہ لاتے تھے اور نہ اُنکے فائیدہ کو دریافت کرتے تھے۔
اب اے پیارو تم اُس پاگل شہر کو کیا سمجھتے ہو کیا اُسکا نام کلکتہ ۔ یا بمبئی۔ یا لکھنؤ۔ یا الہ با د تھا ہاں یہہ بات اُن سب کی نسبت بلکہ دنیا کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے حق میں سچ اور درست ہے کیونکہ تمام جہان کے لوگ گناہ کے بھاری قرض میں گرفتار ہیں اور اسیواسطے ضرور ہے کہ ہم سب کو ئی ہر روز خدا سے منت کریں کہ ہمارے قرضوں کو معاف کر اور وہ کو ن شہزادہ تھا جسنے اُس شہر میں آکے اُسکے باشندوں کے سب قرضوں کو اپنے اُوپر اُٹھا لیا۔ وہ ۔ سلامتی کا شہزادہ القادر کا بیٹا خداوند عیسیٰ مسیح بادشاہوں کا بادشاہ اور خداوندونکا خدا وند تھا جو بے انتہا سلطنت کا وارث ہے۔ اُسکا آنا مشرقی مجوسیوں کو آگے سے بتلایا گیاتھا اور بیت الحم کے چرواہوں کو آسمانی فرشتے نظر آئے اور اُسکی آمد کی خبردیکے یوں بولے کہ خدا کو آسمان پر تعریف اور زمین پر سلامتی اور آدمیوں سے رضا مندی ہو۔
یہہ قصّہ جو میں ابھی سنا چکا کوئی نیا نہیں ہے بلکہ تمام دنیا کی تواریخ میں سب سے سچا اور سب سے مفید اور سب سے عجیب ہے کیونکہ ہر ایک شخص کا اُسمیں حصّہ ہے اور مبارک وہ قرضدار ہے جو اُس رحیم شہزادہ کو پہچانے اور اُسپر بھروسہ رکھے ۔ از فخراں المسیحی