بفرض محال اگر یہوداہ (اسکر یوتی )کی صورت مسیح کی صورت سے بدل گئی تو اُس کا دِل و روح  غیر مبدل  (نہیں بدلا تھا)رہا تو اس لاحل عُقدہ )نہ کھل سکنے والا راز)کا کشودکار کیونکر ممکن ہے ۔جیسا کہ  انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا لکھتے ہیں کہ "یسوع نے اُن سے کہا کہ تم کسے ڈھونڈتے ہو؟وہ بولے یسوع ناصری کو، یسوع نے جواب دیا میں نے تمہیں کہا ہے کہ ’’ میں ہوں ‘‘ تب شعمون پطرس کے تلوار جو اُس کے پاس تھی کھینچی اور سردار کاہن کے نوکر پر چلائی اور اُس کا دہنا کان اُڑا دیا اور اُس نوکر  کا نام ملخس تھا ۔تب یسوع نے پطرس کو کہا کہ اپنی تلوار میان میں  کر۔کیا وہ پیالہ جو باپ  نے مجھے دیا نہ پیئوں اور لوقا لکھتا ہے کہ یسوع نے ملخس کے کان کو چھو کر اُس کو چنگا کیا۔کیا تبدیل صورت کے ساتھ اس طاقت معجزہ نمائی (معجزے دکھانے کی طاقت)و رحم  گستری  (رحم کرنا)بھی اُس کو یسوع کی مانند حاصل ہوگیا؟خداوند ایسے بیہودہ خیالات سےمحفوظ رکھے ۔پھر مُبدل یہودا ہ پطرس کا ہاتھ کیوں روکتاہےبلکہ اپنی طرفداری میں ایسا بہادر انہ حملہ کرنے والے کی اور زیادہ تائید کرتااور کیونکہ ایک نا بکار (نکما،بےکار)شخص کی زبان سے یہ کلمات صادر ہوتے ’’ کیا وہ پیالہ جو باپ نے مجھے دیا ہے نہ پیئوں ‘‘۔بلکہ اس حالت میں مبتلا ہو کر تو وہ خدا کے نام پر کفر بکتا نہ کہ اُس کو اپنا باپ کہتا۔کاش کہ اہلِ اسلام اس شبہ لہم کے ورطہ مُہلک (خطرناک حالت)سے نکل کر ساحل ِنجات پر آ ئیں  ۔اور یسعیاہ نبی کے ساتھ ہمکلام ہو کر اقرار کریں کہ وہ (عیسیٰ)ہمارے گناہوں کے سبب گھائل (زخمی)کیا گیا اور ہماری بدکاریوں کے باعث کچلا گیااور ہماری سلامتی کے لئے اُس پر سیاست ہوئی ۔تا کہ اُس کے مار کھانے سے ہم چنگے ہوں(یسعیاہ ۵۳: ۵)۔

اگر بقول مفسر قرآن یہوداہ کی صورت مسیح کی صورت سے بدل گئی تھی تو متی رسول کے اس بیان کا کیونکر اہل اسلام فیصلہ کریں گے جو ۲۷باب ۳ سے ۵ویں آیت تک صاف صاف لکھا گیا ہے کہ ”جب اس کے پکڑوانے والے یہوداہ نے یہ دیکھا کہ وہ مجرم ٹھہرایا گیا تو پچھتایا اور وہ تیس روپے سردار کاہنوں اور بزرگوں کے پاس واپس لا کر کہا ۔ میں نے گناہ کیا کہ بے قصور کو قتل کے لئے پکڑوایا انہوں نے کہا ہمیں کیا؟ تو جان اور وہ روپیوں کو مقدس میں پھینک کر چلا گیا اور جا کر اپنے آپ کو پھانسی دی“۔

متی کے اس بیان کی تصدیق پطرس کی گواہی سے بھی جو صعود مسیح کے بعد تخمیناً ایک سو بیس مسیحیوں کے مجمع میں دی پائی جاتی ہے کہ اسے بدکاری کی مزدوری سے کھیت مول لیا اور اوندھے منہ گرا اور اس کا پیٹ پھٹ گیا اور اس کی ساری انتڑیاں نکل پڑیں اور یہ یروشلم کے سب رہنے والوں کو معلوم ہوا یہاں تک کہ اس کھیت کا نام ان کی زبان میں ہقل دما ہوا یعنی خون کا کھیت (اعمال۱:۷۱۔۹۱)۔

اب ہم پلاطس کی بارگاہ میں اس متمثل (ملتے جلتے)شخص کی باتوں کی نسبت اپنے بھائیوں گرفتار شبہ لہم سے چند سوالات کرنا چاہتے ہیں اور امید ہے کہ حق پر نظر رکھ کے ان کو اپنے دلہائے انصاف پسند (دل سے انصاف کے ساتھ) سے سوچیں۔ بقول شخصے دل سب کا منصف ہوتا ہے اگر ہم حق پر ہیں تو وہ ہمارے ساتھ اقرار کریں کہ فی الواقع مسیح مصلوب پر گنہگار آدم زاد کی نجات منحصر ہے ورنہ تمام پیشین گوئیاں اور اقوال انجیل جو چشم دیدہ گواہوں سے قلمبند ہوئے سب باطل ٹھہریں گے اور یہ مطلق غیر ممکن ہے۔