کوئی کسی کے لئے کفارہ نہیں دے سکتا ایک مسلمان نے کہا: مسیحی کے ایمان کے مطابق کفارہ کا نظام غلط ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مسیحی بائبل کے بجائے پولس رسول کی پیروی کر رہے ہیں۔ آپ خود پڑھ لیں، حزقی ایل 18:20 میں لکھا ہے۔ جو جان گُناہ کرتی ہے وُہی مَرے گی ۔ بیٹا باپ کے گُناہ کا بوجھ نہ اُٹھائے گا اور نہ باپ بیٹے کے گُناہ کا بوجھ۔ صادِق کی صداقت اُسی کے لِئے ہو گی اور شرِیر کی شرارت شرِیر کے لِئے۔ تو اس آیت کے مطابق ایک انسان دوسرے کے گناہ کے لئے جان نہیں دے سکتا بلکہ اسکے اعمال یعنی گناہ اور اچھے کام صرف اسکے لئے ہی ہیں۔ مسیحی جواب: سطور بالا کو بغور سے دیکھا جائے تو مسلمانوں کی بات میں وزن لگتا ہے مگر جب اسکے متن کو دیکھا جائے تو بہت مختلف صورت حال ہے۔ لہذا، پہلے میں یہ ثابت کرونگا کہ مسلم بھی کفارے پر ایمان رکھتے ہیں اور پھر میں حزقی ایل کے متن کو بیان کرونگا۔ ۱: حزقی ایل کا متن، یہودیوں کی تاریخ میں یہ سب سے سخت اور مشکل وقت ہے۔ وہ غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں جسکا بیان نبی دانیال نے کیا تھا۔ بہت سی اقوام جیسے، بابلی، اسیریا، رومن اور یونان والوں نے یکے بعد دیگرے ان پر قبضہ کیا اور انکو غلامی میں دھکیلا تاکہ انکو تباہ برباد کیا جا سکے۔ انکی مصیبتوں میں کمی آنے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی۔ تو جب بھی کوئی مہذب انسان گناہ گاروں کو نصیحت کرتا تو انکا جواب ہوتاہے کیوں کہ آدم کے گناہ کی وجہ سے ہم میں بھی گناہ کی قابلیت آ گئی ہے تو ہم گناہ کرنے سے باز نہیں آسکتے۔ اس آیت میں انکو نصیحت کری جارہی ہے کہ ہر انسان میں گناہ سے بچنے کی خوبی ہے لہذا آدم یا دوسروں کو یا اصلی گناہ کی فطرت کو الزام دینے کے بجائے، خدا کے حکموں پر چلو جسکی آزادی ہے۔ لہذا اس آیت میں کفارے کے خلاف کوئی بیان نہیں بلکہ موروثی گناہ پر بات کی جارہی ہے۔ ۲: مسلمان، اپنے زندہ اور وفات ہوئے والدین، اولیاء، نبی اور رشتے داروں کے لئے دعا، نماز، زکواۃ اور اچھے اعمال کر کے ان پر اس ثواب کو بھیجتے ہیں۔ اس طرح انکے گناہ صغیرا معاف بھی ہو جاتے ہیں اور انکے نام اعمال میں اسکا ثواب بھی لکھ دیا جاتا ہے اور انکے قبر میں درجات بلند ہوتے ہیں۔ یہ بھی کفارے کا ایک مختلف طریقہ اور نظریہ ہے۔ اب اگر مسلم حضرات کو حزقی ایل سے خوشی ہے تو پھر اسکے مطابق انکے گناہ بھی آپ کی دعا یا اچھے کاموں سے معاف نہیں ہو سکتے اور ناہی انکے نام اعمال میں لکھے جا سکتے ہیں۔ اسلام میں بہت سے طریقوں سے کفارے کا نظام پایا جاتا ہے۔ ا: اللہ نے اسماعیل کو قربانی سے کفارہ دیکر بچایا۔ قرآن 7:101-109 ۲: یہ قیامت کے دن اپنے (اعمال کے) پورے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور جن کو یہ بےتحقیق گمراہ کرتے ہیں ان کے بوجھ بھی اٹھائیں گے۔ قرآن 16:25 ۳: اور جو کافر ہیں وہ مومنوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے طریق کی پیروی کرو ہم تمہارے گناہ اُٹھالیں گے۔ حالانکہ وہ اُن کے گناہوں کا کچھ بھی بوجھ اُٹھانے والے نہیں۔ کچھ شک نہیں کہ یہ جھوٹے ہیں اور یہ اپنے بوجھ بھی اُٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور (لوگوں کے) بوجھ بھی۔ اور جو بہتان یہ باندھتے رہے قیامت کے دن اُن کی اُن سے ضرور پرسش ہوگی۔ قرآن۔ 29:12-13 ۴: پیغمبر اسلام انکی شفاعت فرمائیں گے جب تک ہر ایک مسلم کو معافی نا مل جائے۔ صحیح بخاری، والیم 9، کتاب 93، نمبر601 ۵: جو مسلم قرآن کے حافظ ہیں یا شہید ہوئے، وہ لوگ اپنے خاندان والوں کی شفاعت کر سکیں گے۔ ۶: اللہ ہر مسلم کے بدلے یہودی اور مسیحی کو دوزخ میں بھیجے گا۔ صحیح مسلم، کتاب نمبر 37، نمبر 6665۔ تو یہ صاف ظاہر ہے کہ ایک طرف تو مسلم مسیح کی قربانی سے کفارے کو ٹھکراتے ہیں تو دوسری طرف خود بھی کفارے پر دوسری طرح ایمان رکھتے ہیں۔ بس مختلف یہ ہے کہ وہ پیغمبر اسلام، اچھے اعمال، دعاوں،حفظ قرآن یا اللہ کی راہ میں شہید ہونے سے کفارہ کرتے ہیں۔ کہیں بھی اللہ نے انسانیت کو نجات دینے کے لئے کوئی خود قدم نہیں اُٹھایا مگر مسیح نے ایسا کیا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ اتنا کچھ کرنے کےبعد بھی مسلمانوں کے پاس نجات کی کوئی ضمانت نہیں۔ یہاں تک کہ پیغمبر اسلام نے بھی اپنے گناہوں کی قرآن میں معافی مانگی ہے، قرآن 40:55۔ تو ایک انسان جو اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے وہ دوسروں کو گناہ سے کیسے بچا سکے گا؟ صرف جنابِ مسیح ہی قرآن اور بائبل میں گناہ سے پاک بیان کئے گئے ہیں اور اسی لئے وہ گناہ سے معاف کر سکتے ہیں۔ خادم المسیح