خواتین اور اسلام
انتباہ:
اسلامی کتب میں قرآن اور احادیث ہی حرف ِ آخر ہیں ۔ مسلمان یہ ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن اللہ کا الہی مکاشفہ ہے، (مختلف ترجموں میں آئیتوں میں خفیف سا اختلاف پایا جاتاہے)۔ ہر سورۃ پورے باب کا پیشہ خیمہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق محمد مرد کامل کے طور پر ایک نمونہ ہیں جس کی تقلید ہر مسلمان پر فرض ہے۔ جو کچھ انہوں نے کہا اور عمل میں لائے وہ حدیث کہلاتی ہے۔ احادیث چھ طرح کی ہیں۔ احادیث : بخاری ، مسلم، ابو داؤد ، ترمزی، سنن ابنِ ماجہ، اور سنن نسائی۔ اس کتابچہ کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو محمد کی تعلیمات اور انکے کاموں سے روشناس کروایا جائے، نہ کہ ان کے جذبات کو برانگیختہ کیا جائے؛ مسلمانوں کو کسی حد اپنے خدا کے بارے میں آگاہی ہو کہ اس موضوع کے حوالے سے اللہ اور محمد نے کیا کہا ہے۔
مسیحٰی ایمان کے مطابق، شوہر کو بطور فرض یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ ” اپنی بیوی کو ایسے ہی پیار کرے جیسے مسیح خداوند نے کلیسیاء سے کیا اور اپنی جان اس کے لئے دی” (افسیوں 5:25)
لیکن جب لوگ بائبل مقدس سے منہ موڑ لیتے ہیں تو خواتین کیساتھ طلم و استبداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ کچھ حضرات نے تو خواتین سے ناروا سلوک کے لئے بائبل مقدس کو دلیل بنانے کا دعوی بھی کیا ہے۔ لیکن بائبل مقدس میں موجود چھوٹے سے چھوٹا شوشہ بھی اس طرح کی تعلیم کی پزیرائی نہیں کرتا!
قطع نظر، نسل ، مذہب، جنس، مغربی تہذیب میں مساوات کی بنیاد ان سطور پر قائم ہے:
1۔ یہواہ جو بائبل کا خدا ہے ، اس نے مرد اور عورت کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ پر تخلیق کیا ہے۔ (پیدائش 1:27)
2۔ مسیح خداوند میں، جو اسے اپنا خداوند اور نجات دہندہ قبول کرتے ہیں وہ اس کے خاندان کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ ( انجیل بمطابق یوحنا 1:12)
3۔ خدا تعالیٰ جانب داری یا منافقت کو پسند نہیں کرتا (1۔ تیمتھیس 5:21)؛( یعقوب کا خط 3:17 )
اسلام کیمطابق اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کو بطور غلام تخلیق کیا (سورۃ 19:93) اور اسی بنا پر کوئی بھی یا کسی بھی طرح سے خدا تعالی کے حلقہ فرزنئیت میں نہیں آسکتا۔ نتیجتاً اسلامی شریعہ کی نظر میں لوگ مساوی حقوق نہیں رکھتے جس کی بنیاد قرآن اور احادیث کی تعلیمات ہیں۔
اسلامی شریعۃ کیمطابق خواتین کمترین ہیں۔ عدالت میں عورت کی گواہی مرد کے مقابلے میں آدھی تصور کی جاتی ہے (سورۃ 2:282؛ البخاری :حدیث نمبر 826، جلد نمبر 3) خواتین عقل کے لحاظ سے کوتاہ اور مذہبی معامعلات میں بھی کمترین ہیں (البخاری:حدیث نمبر 301؛ جلد نمبر 1؛ حدیث نمبر 826، جلد نمبر 3؛ حدیث نمبر 541، جلد نمبر 2)؛ عورتوں کے متعلق حوالہ جات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی حیثیت مال و متاع جیسے سونا، چاندی ، گھوڑے اور مال مویشی سے زیادہ کچھ نہیں (سورۃ 2:223)؛ ایک عورت کو اس کا شوہر اپنی نفسانی خواہشات کے لئے ایک کھیت کی طرح استعمال کرسکتا ہے (سورۃ 2:223) ایک مرد اپنی بیوی کے بدلے میں دوسری بیویاں لاسکتا ہے (سورۃ 4:20) ؛ اور احادیث کیمطابق شیطان عورت کے روپ میں ظاہر ہوسکتا ہے (صحیح مسلم : حدیث نمبر 3240، جلد نمبر 2)
عورتوں کے متعلق اسلام کی تعلیمات حسب ذیل ہے:
۔ دوزخ میں سب سے زیادہ تعداد عورتوں کی ہوگی (البخاری جلد نمبر 1: حدیث نمبر 301؛ مسلم جلد نمبر 4: حدیث نمبر 6600)
۔ سب سے بہترین خواتین وہ ہیں جنہیں کوئی دیکھ نہ پائے اور نہ ہی وہ کسی مرد کو دیکھ پائیں ( امام غزالی نے اس کا حدیث کو الحیا العلومِ دین، جلد نمبر 2 ، کتاب آداب النکاح ، بیروت: دارالکتوب المہیا ، صحفہ نمبر 53 میں ذکر کیا ہے)
۔ ایک آدمی چار خواتین کو زوجیت میں لا سکتا ہے (سورۃ 4:3 اور 129)
۔ آدمی ایک کم سن بیوی سے بیاہ رچا سکتا ہے (سورۃ 65:4 ‘ قرآن کریم ‘) ؛ مرد حضرات عارضی طور پر ایک عورت کو بیوی بنا سکتے ہیں (متاع) (سورۃ 4:24؛ البخاری جلد نمبر 7: حدیث نمبر 13 الف ، 52؛ صحیح مسلم جلد نمبر 2: حدیث نمبر 3247، البخاری ، جلد نمبر 6: حدیث نمبر 139)
۔ مردوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی بیویوں کی پٹائی کریں (سورۃ 4:34)
۔ مرد کثیر التعداد حرمیں رکھ سکتے ہیں (سورۃ 70 اسکی 29 تا 30 آیات)
۔ مرد عورتوں سے افضل ہیں (سورۃ 4:34)
بیان کردہ تعلیمات مسلمان مردوں کے لئے عورتوں پر ظلم کرنے کے لئے کھلی چھٹی کا اجازت نامہ ہے۔ کچھ مسیحی مرد حضرات بھی اپنی زوجاؤں سے برا سلوک کرتے ہیں لیکن ان کے پاس اس حوالے سے کتاب مقدس کی کوئی سند موجود نہیں۔
آبرو ریزی اور زناکاری:
سنہء 1979 میں حکومتِ پاکستان نے حدود آرڈینس کا اجراء کیا جو کہ شرعی قانون ہے۔ ان قوانین نے آبرو ریزی اور زنا کے درمیان تفریق کا قریباً دھندلا دیا ہے۔
زنا تبھی قرار پاتا ہے جب متعلقہ شخص یہ اقرار کر لے کہ اس نے کسی کے ساتھ جنسی اختلاط کیا ہے جو کہ غیر منکوحہ تھا۔ اس قانون کے مطابق غیر مسلم ،مسلمانوں کے خلاف گواہی نہیں دے سکتے۔ گواہ کےلئے ضروری ہے کہ وہ بالغ مرد اور مسلمان ہو کیونکہ عورت کی گواہی آدھی تصور کی جاتی ہے (سورۃ 24:4) نتیجتاً اگر عورت اپنے حق میں گواہ مہیا نہ کرسکے تو وہ زنا کی مرتکب گردانی جاتی ہے ۔ پاکستان انسانی حقوق کمیشن کے ایک اندازہ کیمطابق ہر 8 منٹ کے بعد پاکستان میں زنابالجبر ہوتا ہے اور ہر سال عزت کے نام پر 1500 خواتین کو قتل کردیا جاتا ہے۔ سابقہ آسٹریلوی مفتی ، شیخ الحلالی کے مطابق ” اگر کوئی عورت اپنے آپ کو مکمل طور پر ڈھانپنے میں کسی کوتاہی کی مرتکب ہو وہ زنا کے لائق ہے یا اس کے ساتھ زنا جائز ہے ” ۔
شامی خبررساں ایجنسی (مورخہ 27 دسمبر ، سنہ 2005) میں خبر شائع کرتی ہے کہ لبنانی شیخ فیض محمد نے کہا کہ ” عورت کسی پر الزام نہیں لگا سکتی سوائے خود کے ” اسی طرح ڈنمارک کے مفتی اور ایک اسلامی پینل جس کی سربراہی مصری اسکالر شیخ یوسف القردوای کرتے ہیں، فرماتے ہیں کہ ” ان خواتین کو جن کی آبروریزی اس وجہ سے کی گئی ہو کہ انہوں نے غیرمہذب لباس زیب تن کئے ہوئے تھے ، سزا کے لائق ہیں ، ” کیونکہ ” جرم سے بری ہونے کے لئے ضروری ہے کہ عصمت دری کا شکار عورت اچھے کردار کا مظاہرہ کرے”۔ (ٹیلیگراف 11، جولائی 2004)
1998 میں انڈونیشیا میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں کے 100 سے زائد چینی خواتین کی رواداد شائع کی جن کیساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی یہ دلسوز واقعات صدر شراتو کی حکومت کے تختہ الٹنے سے پہلے بغاتوں کے دوران پیش آئے۔ ان میں سے بیشتر سے یہ کہا گیا کہ : ضرور ہے کہ تمہاری عزتیں لوٹی جائیں کیونکہ تم چینی نثزاد ہو اور غیرملسم ہو! یہ سورۃ 33:59 کے عین مطابق ہے "مومنو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرکے ان کو ہاتھ لگانے (یعنی ان کے پاس جانے) سے پہلے طلاق دے دو تو تم کو کچھ اختیار نہیں کہ ان سے عدت پوری کراؤ۔ ان کو کچھ فائدہ (یعنی خرچ ) دے کر اچھی طرح سے رخصت کردو” ، ایک موقع پر محمد نے ایک مرد کو جو کہ زنا کا مرتکب ہوا تھا کوڑوں کی سزا سنائی ، لیکن عورت کو سنگسار کے ذریعے موت کے گھاٹ اتارنے کی (البخاری ، جلد نمبر 3؛ حدیث نمبر 860)
اس کے برعکس جناب مسیح کا ارشاد مبارک ہے کہ ” اگر آپ نے کسی عورت کی طرف بری نئیت سے نگاہ کرلی تو گویا آپ نے زنا کرلیا ” ( انجیل بمطابق متی رسول 5:28) ان آیات کی روشنی میں مسیحی مرد حضرات سے یہ تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ نوجوان عورتوں کو اپنی بہنوں کی نظر سے دیکھیں اور عمررسیدہ خواتین کو اپنی ماؤں کی حیثیت سے مقدم جانیں (1-تیمتھیس 5:2)
پردہ داری :
مارچ 2002 کو شہر مکہ میں اسکول نمبر 31 میں ایک اندھوناک واقعہ پیش آیا، جب سعودی عوام نے 15 لڑکیوں کی لاشیں اور 40 سے زائد لڑکیوں کو زخمی حالت میں پایا، واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک اہل اسلام کے مقدس شہر مکہ کے ایک اسکول میں اچانک آگ بھڑک اٹھی، لڑکیاں ایک کمرے میں بند تھیں جب یہ آگ بھڑک اٹھی۔ فائر فائٹرز نے جب چاہا کہ دروازہ کو کھول دیا جائے تو انہیں متاواہ (مذہبی پولیس ) نے انہیں جبراً روک دیا کہ وہ لڑکیاں باہر آسکیں کیونکہ وہ لڑکیاں حجاب کے بغیر تھیں ۔ (نیوز ویک مورخہ 22 جولائی، سنہء 2002)
قرآن میں سورۃ 24:31 میں لکھا ہے کہ "اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش (یعنی زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو ان میں سے کھلا رہتا ہو۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند اور باپ اور خسر اور بیٹیوں اور خاوند کے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجیوں اور بھانجوں اور اپنی (ہی قسم کی) عورتوں اور لونڈی غلاموں کے سوا نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں کے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں (غرض ان لوگوں کے سوا) کسی پر اپنی زینت (اور سنگار کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیں۔ اور اپنے پاؤں (ایسے طور سے زمین پر) نہ ماریں (کہ جھنکار کانوں میں پہنچے اور) ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہوجائے۔ اور مومنو! سب خدا کے آگے توبہ کرو تاکہ فلاح پاؤ”
اللہ کے نبی محمد نے عاصمہ ابوبکر کی بیٹی سے کہا ، ” کہ وہ لڑکیاں جو حیض کی عدت پوری کرچکی ہوں، سوائے اپنے ہاتھوں اور چہرے کے خود کو مکمل طور پر ڈھانپیں ، ( ابوداؤد، جلد نمبر 3، حدیث نمبر 4092)
بیاہ:
البخاری ، جلد نمبر 7، حدیث نمبر 17: جب میرا بیاہ ہوا تو اللہ کے پیغمبر نے مجھ سے کہا، ” تم نے کس طرح کی عورت سے شادی رچائی ہے؟ ، ” میں نے جواب دیا، ” ایک بڑی عمرکی عورت سے ، ” اللہ کے پیغمبر نے مجھ سے کہا ، ” تم نے ایک کم عمر لڑکی سے شادی کیوں ںہیں کی، تاکہ تم اسے سے لطف اندوز ہوسکتے اور وہ تم سے "۔
محمد کے مطابق کسی کنواری کا خاموش رہنا اس بات کا عندیہ ہے کہ وہ رشتہ ازدواج سے منسلک ہونا چاہتی ہے ۔ (البخاری جلد نمبر 7، حدیث نمبر 67) آئیت اللہ خیمینی کا کہنا تھا کہ کمسن لڑکی جسے ابھی حیض نہ آئے ہوں "الہی بخشش” ہے اور لڑکیوں سے ان کے حیض کے دنوں سے پہلے شادی کرنا چاہئیے۔ (طاہری 1986، صحفہ نمبر 91-90) محمد نے 6 سال کی کمسن بچی سے شادی رچائ (البخاری جلد نمبر 7، حدیث نمبر 64) اور اس کی کئی بیویاں تھیں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ زواج المسیار جائز نہیں ، منع ہے لیکن محمد نے زواج المسیار کی اجازت دی جب اس کے سپاہیوں کو ان کی ضرورت تھی (سورۃ 4:24؛ اور البخاری جلد نمبر 7، حدیث نمبر 51) پہلے خلیفہ (اول) نے اسے جاری و ساری رکھا، صرف خلیفہ دوم نے اسے معطل کیا لیکن آخری خلیفہ (صدیق الزماں) نے ازدواج المسیارکو دوبارہ جاری کردیا ۔ اس قسم کے نکاح کے لئے حق مہر کچھ کھجوریں اور آٹا کی قلیل مقدار مخصوص کی گئی ( ابو داؤد ، جلد نمبر 2، حدیث نمبر 2105)
عام حالات میں :
البخاری کی ایک حدیث (جلد نمبر 1، حدیث نمبر 490) کیمطابق عورتیں، کتے اور گدھے کسی مرد کی نماز قضا کرسکتے ہیں ۔ جبکہ اس کے برعکس بائبل مقدس کا کہنا ہے کہ ، ” اے شوہرو، تم اپنی بیویوں کے ساتھ عقلمندی سے بسر کرو اور عورت کو نازک ظرف جان کر اس کی عزت کرو اور یوں سمجھو کہ ہم دونوں زندگی کی نعمت کے وارث ہیں تا کہ تمہاری دعائیں نہ رک جائیں” ۔ ( 1 پ پطرس 3 باب اس کی 7ویں آئیت)
محمد کی دلاری بیوی عائشہ فرماتی ہیں ، ” اے عورتو! اگر آپ اس حق کو جانتی جو تمہارے شوہروں کو تم پر ہے تو تم اپنے چہروں سے انکے پاؤں کی دھول کو صاف کرتیں”،
Al-Hashimi, M. The Ideal Muslimah, (1996), Chapter, 4
محمد نے یہ تعلیم دی کہ عورتوں کو علیحدہ کمروں میں بند کردیا کرو، اور زود کوب کیا کرو، لیکن زیادہ سختی سے نہیں۔ عورتوں سے اچھی طرح سے پیش آؤ کیونکہ وہ پالتو جانوروں (آوان) کی طرح سے تمہارے ساتھ کردی گئیں ہیں ، اور ان کی ملکیت میں کچھ رکھ نہ چھوڑو۔”
The History of al-Tabri, Volume IX, pg 113
اس کے برعکس، عورتوں کے حقوق اور عزت و منزلت کے حوالے سے، مسیحیوں کا تصور بالکل جدا ہے ۔ بائبل مقدس فرماتی ہے کہ ، ” اور تم سب جتنوں نے مسیح میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا مسیح کو پہن لیا۔ نہ کوئی یہودی رہا نہ یونانی۔ نہ کوئی غلام نہ آزاد۔ نہ کوئی مرد نہ عورت کیونکہ تم ‘سب مسیح یسوع میں ایک ہو۔ ” (گلتیوں کا خط 3 باب اس کی 28 تا 29 آیات)
شوہروں کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ اپنی بیویوں سے پیار کریں، محبت سےپیش آئیں ایسے جیسے جناب مسیح اپنی کلیسیاء سے کرتے ہیں اور اپنی جان کلیسیاء کے صلیب پر گزرانی ۔ (افسیوں کے نام خط 5:25) ؛ نہ ہی ان پر غصہ ہون اور برے طور پر پیش آئیں (کلسیوں 3:19)؛ اپنی بیویوں سے اپنی مانند محبت کریں (افسیوں 5 باب اس کی 28 تا 33 آیات) اور ان سے نرمی سے پیش آئیں، ( 1 کرنتھیوں 7 باب 3 تا 5 آیات)
شوہروں اور بیویوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ مسیح خداوند کے لئے ایک دوسرے کے تابع رہیں (افسیوں 5:21) ، لیکن شوہر اپنی بیویوں کی ذمہ داری، خبرگیری کریں ۔ (ا-تیمتھیس 5:8)
افسیوں 5:31 کیمطابق ، خدا کی نظر میں یکدل ، یک جان ہوں، یہاں تک کہ طلاق سے خدا کو نفرت ہے ( ملاکی 2:16)۔ آدمیوں اور عورتوں سے متعلق سلوک، قرآن اور بائبل میں واضع طور پر مختلف ہے۔
ممکن ہے کہ جو معلومات اس کتابچہ کے ذریعے سے آپ کو فراہم کی گئیں آپ کے اذہان میں کچھ سوالات اٹھائیں۔ مسلمانوں کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ اس کلام کو جو یہودیوں اور مسیحیوں کے لئے نازل ہوا اس سے مستفید ہوں ، اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کتب انسانی دسترس سے محفوظ نہ رہ سکیں تو یاد رکھئے کہ قرآن میں خود آیا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام کسی طور پر بھی رد و بدل کا شکار نہیں ہوسکتا۔ (سورۃ 6:115؛ سورۃ 10 اسکی 64 تا 65 آیات؛ سورۃ 18:27؛ 48:23) اگر آپ کتاب مقدس کی صداقت و حقانئیت کے متعلق مذید جاننا چاہتے ہیں تو درج ذیل پتہ پر رجوع کیجئے